لبوں سے آشنائی دے رہا ہے
وہ لذت انتہائی دے رہا ہے
محبت بھی ہوئی کار مشقت
بدن تھک کر دہائی دے رہا ہے
چراتا ہے بدن مجھ سے نگاہیں
مجھے دل بھی صفائی دے رہا ہے
کوئی بھر دے گا اپنی قربتوں سے
کوئی زخم جدائی دے رہا ہے
کوئی تو ہے جو اتنی سردیوں میں
بدن جیسی رضائی دے رہا ہے
کوئی مجھ کو یشبؔ اپنی رضا سے
خزانوں تک رسائی دے رہا ہے

غزل
لبوں سے آشنائی دے رہا ہے
یشب تمنا