لبوں سے آنکھ سے رخسار سے کیا کیا نہیں کرتا
وہ جادو کون سا ہے جو کہ وہ چہرہ نہیں کرتا
میں سارے کاغذوں پہ ایک مصرعہ لکھ کے رکھوں گا
وہ جب تک آ کے میرے شعر کو پورا نہیں کرتا
فسادوں میں جو شامل ہیں وہ مہرے ہیں سیاست کے
خود اپنے آپ کوئی بھی یہاں دنگا نہیں کرتا
ہواؤں میں نگر کی اس قدر کچھ زہر پھیلا ہے
نہ گل دیتے ہیں خوشبو پیڑ بھی سایا نہیں کرتا
جو لکھتا ہوں وہ ہوتا ہے فقط تسکین کی خاطر
میں اپنی شاعری کا شہر میں سودا نہیں کرتا
مجھے منظور ہے بیمار رہنا عمر بھر یوں ہی
وہ جب تک ہاتھ سے چھو کر مجھے اچھا نہیں کرتا
چلو مانا کہ اپنی اہمیت ہے شوخؔ دولت کی
زمانے میں مگر ہر کام ہی پیسہ نہیں کرتا
غزل
لبوں سے آنکھ سے رخسار سے کیا کیا نہیں کرتا
پروندر شوخ