لبوں پہ اب کوئی آہ و فغاں نہیں ہوتی
زباں سے دل کی کہانی بیاں نہیں ہوتی
خلش تو آج بھی ہوتی ہے میرے سینے میں
نشست درد جہاں تھی وہاں نہیں ہوتی
خدا نے چاہا تو مل جائیں گے کہیں نہ کہیں
بچھڑ کے ختم یہاں داستاں نہیں ہوتی
جو خود سے ملتے ہیں ہم بے خودی کے عالم میں
تمہاری یاد تلک درمیاں نہیں ہوتی
وہ قتل ہو کے بھی قاتل پہ مسکراتی ہے
اجل سے زیست کبھی بد گماں نہیں ہوتی
تمہارے چاہنے والے وہاں نہیں ملتے
دلوں میں درد کی شدت جہاں نہیں ہوتی
غزل
لبوں پہ اب کوئی آہ و فغاں نہیں ہوتی
شعلہ ہسپانوی