لب تک جو نہ آیا تھا وہی حرف رسا تھا
جس کو نہ میں سمجھا تھا وہی میرا خدا تھا
میں دست صبا بن کے اسے چھیڑ رہا تھا
وہ غنچۂ نو رس تھا ابھی تک نہ کھلا تھا
پتھر کی طرح پھول مرے سر پہ لگا تھا
اس وقت سبھی روئے تھے میں صرف ہنسا تھا
اترا تھا رگ و پے میں مرے زہر کے مانند
وہ درد کی صورت مرے پہلو سے اٹھا تھا
محروم رکھا تھا مجھے میری ہی انا نے
جو اٹھ نہ سکا تھا وہ مرا دست دعا تھا
ہر چند کی نسبت تو مجھے گل سے رہی تھی
میں بو کی طرح پیرہن گل سے جدا تھا
محرومی کا احساس رہا اس سے نہ مل کر
ملنے پہ یہ احساس مگر اور سوا تھا
جیسے کوئی کچھ رکھ کے کہیں بھول گیا ہو
اس طرح ازل سے وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا
غزل
لب تک جو نہ آیا تھا وہی حرف رسا تھا
شاہد عشقی