EN हिंदी
لب تک جو نہ آیا تھا وہی حرف رسا تھا | شیح شیری
lab tak jo na aaya tha wahi harf-e-rasa tha

غزل

لب تک جو نہ آیا تھا وہی حرف رسا تھا

شاہد عشقی

;

لب تک جو نہ آیا تھا وہی حرف رسا تھا
جس کو نہ میں سمجھا تھا وہی میرا خدا تھا

میں دست صبا بن کے اسے چھیڑ رہا تھا
وہ غنچۂ نو رس تھا ابھی تک نہ کھلا تھا

پتھر کی طرح پھول مرے سر پہ لگا تھا
اس وقت سبھی روئے تھے میں صرف ہنسا تھا

اترا تھا رگ و پے میں مرے زہر کے مانند
وہ درد کی صورت مرے پہلو سے اٹھا تھا

محروم رکھا تھا مجھے میری ہی انا نے
جو اٹھ نہ سکا تھا وہ مرا دست دعا تھا

ہر چند کی نسبت تو مجھے گل سے رہی تھی
میں بو کی طرح پیرہن گل سے جدا تھا

محرومی کا احساس رہا اس سے نہ مل کر
ملنے پہ یہ احساس مگر اور سوا تھا

جیسے کوئی کچھ رکھ کے کہیں بھول گیا ہو
اس طرح ازل سے وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا