لب پہ اک نام جب آتا ہے تو رو لیتے ہیں
کوئی جی بھر کے رلاتا ہے تو رو لیتے ہیں
چاندنی رات کی مہکی ہوئی تنہائی میں
ساز غم پر کوئی گاتا ہے تو رو لیتے ہیں
نور و نکہت کی فضاؤں کا دل آویز سماں
دل میں جب آگ لگاتا ہے تو رو لیتے ہیں
آج بھی حادثۂ درد محبت کی قسم
پیار جب کوئی بڑھاتا ہے تو رو لیتے ہیں
آرزوؤں کی اجاڑی ہوئی محفل میں کہیں
شمع دل کوئی جلاتا ہے تو رو لیتے ہیں
کوئی انجان مسیحا کوئی غم کا ساتھی
قصۂ درد سناتا ہے تو رو لیتے ہیں
دل کی گلیوں سے تصور کی حسیں وادی سے
جب کوئی روٹھ کے جاتا ہے تو رو لیتے ہیں
جانے کس زخم محبت کا خیال آتا ہے
پیار سے کوئی بلاتا ہے تو رو لیتے ہیں
اب بھی امید کے سوئے ہوئے زخموں کو رئیسؔ
جب کوئی آ کے جگاتا ہے تو رو لیتے ہیں

غزل
لب پہ اک نام جب آتا ہے تو رو لیتے ہیں
رئیس اختر