لب پہ حرف معتبر رکھتا ہے وہ
بات کرنے کا ہنر رکھتا ہے وہ
ایک عالی شان گھر رکھتا ہے وہ
پھر بھی خود کو در بدر رکھتا ہے وہ
ایک اپنی ہی نہیں ہیں الجھنیں
کتنے غم ہائے دگر رکھتا ہے وہ
اڑ رہا ہے جو کھلے آکاش میں
آنے والے کل کا ڈر رکھتا ہے وہ
سر سے پا تک چیختی سناٹگی
اپنے اندر اک کھنڈر رکھتا ہے وہ
ٹھوکروں میں اس کی ہے سلطانیت
پیٹ پر پتھر مگر رکھتا ہے وہ
دل جلا کے جانے کی کی یاد میں
شام کی دہلیز پر رکھتا ہے وہ
دل کے پاؤں ڈال دی زنجیر عقل
نفس کو یوں مار کر رکھتا ہے وہ
رات بھر چہرہ خدا کی یاد میں
آنسوؤں سے تر بہ تر رکھتا ہے وہ
کھویا رہتا ہے کتابوں میں مگر
شہر و صحرا کی خبر رکھتا ہے وہ
آدمی سے ہو گئی ہیں نفرتیں
گھر میں جنگلی جانور رکھتا ہے وہ
جھیل لڑکی مور تتلی گل ہوا
خواب کی دیوار پر رکھتا ہے وہ
ایک نقش پا زمیں پر ہے منیرؔ
دوسرا افلاک پر رکھتا ہے وہ
غزل
لب پہ حرف معتبر رکھتا ہے وہ
منیر سیفی