EN हिंदी
لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے | شیح شیری
lab pe aai hui ye jaan phire

غزل

لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے

انشاءؔ اللہ خاں

;

لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے
یار گر اس طرف کو آن پھرے

چین کیا ہو ہمیں جب آٹھ پہر
اپنے آنکھوں میں وہ جوان پھرے

خون عاشق چھٹا کہ ہے لازم
تیرے تلوار پر یہ سان پھرے

ساقیا آج جام صہبا پر
کیوں نہ لہراتی اپنی جان پھرے

ہچکیاں لی ہے اس طرح بط مے
جس طرح گٹکری میں تان پھرے

یا تو وہ عہد تھے کہ ہم ہرگز
نہ پھریں گے اگر جہان پھرے

آئے اب روکے ہو معاذ اللہ
آپ سے شخص کی زبان پھرے

روٹھ کر اٹھ چلے تھے انشاؔ سے
بارے پھر ہو کے مہربان پھرے