EN हिंदी
لب پر خموشیوں کو سجائے نظر چرائے | شیح شیری
lab par KHamoshiyon ko sajae nazar churae

غزل

لب پر خموشیوں کو سجائے نظر چرائے

زہرا نگاہ

;

لب پر خموشیوں کو سجائے نظر چرائے
جو اہل دل میں بیٹھے ہیں چپ چاپ سر جھکائے

کہہ دو کوئی صبا سے ادھر آج کل نہ آئے
کلیاں کہیں مہک نہ اٹھیں پھول کھل نہ جائے

اب دوستی وہ فن کہ جو سیکھے وہی نبھائے
اور ہے وفا تماشا جسے آئے وہ دکھائے

کچھ کہنا جرم ہے تو خطا وار میں بھی ہوں
یہ اور بات میرا کہا وہ سمجھ نہ پائے