EN हिंदी
لب پر جو مرے آہ غم آلود نہیں ہے | شیح شیری
lab par jo mere aah-e-gham-alud nahin hai

غزل

لب پر جو مرے آہ غم آلود نہیں ہے

جوشش عظیم آبادی

;

لب پر جو مرے آہ غم آلود نہیں ہے
اظہار محبت مجھے مقصود نہیں ہے

ہم جیسے فقیروں کو تو یوں بھی نہ کہے وہ
پھر آئیو کچھ اس گھڑی موجود نہیں ہے

کہتا ہوں میں یہ گبر و مسلمان کے منہ پر
وہ عبد نہیں جس کا تو معبود نہیں ہے

نرمائے ہے کس طرح سے اس آہن دل کو
یہ آہ اگر نغمۂ داؤد یہیں ہے

پھرتے ہیں کئی قیس سے حیران و پریشان
اس عشق کی سرکار میں بہبود نہیں ہے

تاثیر مدد کیجیو اب سینے میں اپنے
اس نالے سے اک آہ بھی افزود نہیں ہے

خوبیٔ ایاز آپھی نظر آ گئی ہوتی
افسوس ترے عہد میں محمود نہیں ہے

اس آتش فرقت کے سوا دہر میں ؔجوشش
دیکھا تو کہیں آتش بے دود نہیں ہے