EN हिंदी
لب پر دل کی بات نہ آئی | شیح شیری
lab par dil ki baat na aai

غزل

لب پر دل کی بات نہ آئی

ضیا فتح آبادی

;

لب پر دل کی بات نہ آئی
واپس بیتی رات نہ آئی

خشک ہوئیں رو رو کر آنکھیں
مدھ ماتی برسات نہ آئی

میری شب کی تاریکی میں
تاروں کی سوغات نہ آئی

مے خانے کی مست فضا میں
راس مجھے ہیہات نہ آئی

دل تو امڈا رو نا سکا میں
چھائی گھٹا برسات نہ آئی

میرا چاند نکلنے کو تھا
شام سے پہلے رات نہ آئی

جس پر محفل لٹ جاتی ہے
تجھ کو ضیاؔ وہ بات نہ آئی