لب منطق رہے کوئی نہ چشم لن ترانی ہو
زمیں پھر سے مرتب ہو فلک پر نظر ثانی ہو
ابھی تک ہم نے جو مانگا ترے شایاں نہیں مانگا
سکھا دے ہم کو کن کہنا جو تیری مہربانی ہو
خس بے ماجرا ہیں خار بے بازار ہیں تو کیا
نمو شہکار ہم بھی ہیں ہماری بھی کسانی ہو
ملیں گے دھوپ کی ماری چٹانوں میں بھی خواب نم
کوئی خشکی نہیں ایسی جہاں تہ میں نہ پانی ہو
لہو کو بھی تنفس ہی رواں رکھتا ہے خلیوں میں
بہے صحرا میں بھی کشتی اگر زور دخانی ہو
بڑا سرخاب پر نکلا بدن کا خونچکاں رہنا
شفق سیاح کی لازم تھی رنگت ارغوانی ہو
تخاطب کے لیے تفضیلؔ ابجد میرے حاضر ہیں
کوئی نقارہ خانہ ہو کہ بیت بے زبانی ہو
غزل
لب منطق رہے کوئی نہ چشم لن ترانی ہو
تفضیل احمد