لب خموش مرا بات سے زیادہ ہے
ترا فراق ملاقات سے زیادہ ہے
یہ اک شکست جو ہم کو ہوئی محبت میں
زمانے بھر کی فتوحات سے زیادہ ہے
بہت ہی غور سے سنتا ہوں دل کی دھڑکن کو
یہ اک صدا سبھی اصوات سے زیادہ ہے
امید بھی ترے آنے کی آج کم ہے ادھر
یہ دل کا درد بھی کل رات سے زیادہ ہے
میں اس سے عشق تو کر بیٹھا ہوں مگر طارقؔ
یہ سلسلہ مری اوقات سے زیادہ ہے

غزل
لب خموش مرا بات سے زیادہ ہے
طارق ہاشمی