EN हिंदी
لب خموش مرا بات سے زیادہ ہے | شیح شیری
lab-e-KHamosh mera baat se ziyaada hai

غزل

لب خموش مرا بات سے زیادہ ہے

طارق ہاشمی

;

لب خموش مرا بات سے زیادہ ہے
ترا فراق ملاقات سے زیادہ ہے

یہ اک شکست جو ہم کو ہوئی محبت میں
زمانے بھر کی فتوحات سے زیادہ ہے

بہت ہی غور سے سنتا ہوں دل کی دھڑکن کو
یہ اک صدا سبھی اصوات سے زیادہ ہے

امید بھی ترے آنے کی آج کم ہے ادھر
یہ دل کا درد بھی کل رات سے زیادہ ہے

میں اس سے عشق تو کر بیٹھا ہوں مگر طارقؔ
یہ سلسلہ مری اوقات سے زیادہ ہے