لب اظہار پہ جب حرف گواہی آئے
آہنی ہار لیے در پہ سپاہی آئے
وہ کرن بھی تو مرے نام سے منسوب کرو
جس کے لٹنے سے مرے گھر میں سیاہی آئے
میرے ہی عہد میں سورج کی تمازت جاگے
برف کا شہر چٹخنے کی صدا ہی آئے
اتنی پر ہول سیاہی کبھی دیکھی تو نہ تھی
شب کی دہلیز پہ جلنے کو دیا ہی آئے
رہ رو منزل مقتل ہوں مرے ساتھ صباؔ
جو بھی آئے وہ کفن اوڑھ کے راہی آئے
غزل
لب اظہار پہ جب حرف گواہی آئے
سبط علی صبا