لب دریا مرادوں کا مکاں کیسا رہا ہوگا
گھنی پلکوں تلے آب رواں کیسا رہا ہوگا
دہکتی آگ میں وہ سائباں کیسا رہا ہوگا
ہمارے سر کے اوپر آسماں کیسا رہا ہوگا
بہت بے چین ہے خاک بیاباں سر پٹکتی ہے
دوانہ شہر بھر میں بے اماں کیسا رہا ہوگا
ستارے بجھ گئے ہوں گے زمینیں جل رہی ہوں گی
پھر اس کے بعد سیر لا مکاں کیسا رہا ہوگا
زمیں کی بے پناہی دیکھتا ہوں یاد کرتا ہوں
فلک پہلو میں تم سا مہرباں کیسا رہا ہوگا
غزل
لب دریا مرادوں کا مکاں کیسا رہا ہوگا
خورشید اکبر

