لاوے خاطر میں ہمارے دل کو وہ مغرور کیا
جس کے آگے مہر کیا مہ کیا پری کیا حور کیا
دل نیا ہم نے لگایا ہے بتا دو مہرباں
اس کی ہے رہ کیا روش کیا رسم کیا دستور کیا
یاد ہوں عیاریاں جس کو بہت ہم کیا کریں
اس کے آگے مکر کیا جل کیا فسوں کیا زور کیا
یوں کہا ہم لیں گے بوسہ اب تو چھو کر زلف کو
بولا منہ کیا دست گہ کیا تاب کیا مقدور کیا
ہم کو چاہت ایک سی ہے اس پری رو سے نظیرؔ
روبرو کیا در قفا کیا متصل کیا دور کیا
غزل
لاوے خاطر میں ہمارے دل کو وہ مغرور کیا
نظیر اکبرآبادی