EN हिंदी
لاکھ پردوں میں گو نہاں ہم تھے | شیح شیری
lakh pardon mein go nihan hum the

غزل

لاکھ پردوں میں گو نہاں ہم تھے

آتش بہاولپوری

;

لاکھ پردوں میں گو نہاں ہم تھے
پھر بھی ہر چیز سے عیاں ہم تھے

ایک عالم کے ترجماں ہم تھے
ان کے آگے ہی بے زباں ہم تھے

ہم ہی ہم تھے وہاں جہاں ہم تھے
آپ آئے تو پھر کہاں ہم تھے

ہر رگ و پے میں برق رقصاں تھی
ہائے وہ وقت جب جواں ہم تھے

آج تو خیر سے ہیں عرش مقام
کل زمیں پر بھی آسماں ہم تھے

غم کے ماروں کو ناز تھا ہم پر
جذبۂ غم کے ترجماں ہم تھے

ہر قدم پہ تھی سامنے منزل
سوئے منزل رواں دواں ہم تھے

زندگی بھر جو لب پہ آ نہ سکی
درد و غم کی وہ داستاں ہم تھے

دوستوں کا تو ذکر کیا آتشؔ
دشمنوں پر بھی مہرباں ہم تھے