EN हिंदी
لاکھ کچھ نہ ہم کہتے بے زباں رہے ہوتے | شیح شیری
lakh kuchh na hum kahte be-zaban rahe hote

غزل

لاکھ کچھ نہ ہم کہتے بے زباں رہے ہوتے

چرن سنگھ بشر

;

لاکھ کچھ نہ ہم کہتے بے زباں رہے ہوتے
آپ تو بہ ہر صورت بد گماں رہے ہوتے

وہ تو رنگ لے آئی اپنے خون کی گرمی
ورنہ سارے قصے میں ہم کہاں رہے ہوتے

رات کے بھنور میں ہیں ہم چراغ کی صورت
ساتھ ساتھ ہوتے تو کہکشاں رہے ہوتے

آج اک حقیقت ہیں سر فروشیاں اپنی
ورنہ ہم تباہی کی داستاں رہے ہوتے

دھوپ ہے مسائل کی اور اک بشرؔ تنہا
کاش سر پہ رشتوں کے سائباں رہے ہوتے