لاکھ غم سینے سے لپٹے رہے ناگن کی طرح
پیار سچا تھا مہکتا رہا چندن کی طرح
تجھ کو پہچان لیا ہے تجھے پا بھی لوں گا
اک جنم اور ملے گر اسی جیون کی طرح
اب کوئی کیسے پہنچ پائے گا تیرے غم تک
مسکراہٹ کی ردا ڈال دی چلمن کی طرح
کوئی تحریر نہیں ہے جسے پڑھ لے کوئی
زندگی ہو گئی بے نام سی الجھن کی طرح
جیسے دھرتی کی کسی شے سے تعلق ہی نہیں
ہو گیا پیار ترا بھی ترے دامن کی طرح
شام جب رات کی محفل میں قدم رکھتی ہے
بھرتی ہے مانگ میں سندور سہاگن کی طرح
مسکراتے ہو مگر سوچ لو اتنا اے نورؔ
سود لیتی مسرت بھی مہاجن کی طرح

غزل
لاکھ غم سینے سے لپٹے رہے ناگن کی طرح
کرشن بہاری نور