لاکھ بہکائے یہ دنیا ہو گیا تو ہو گیا
دل سے جو اک بار میرا ہو گیا تو ہو گیا
کیوں ندامت ہو مجھے لا اختیاری فعل پر
میں تری نظروں میں رسوا ہو گیا تو ہو گیا
کم زیادہ ہو تو سکتا ہے مگر چھٹتا نہیں
جس کو جو اک بار نشہ ہو گیا تو ہو گیا
دل بہت روتا ہے لیکن اس بت مغرور سے
منقطع ہر ایک رشتہ ہو گیا تو ہو گیا
منتقل ہوتا ہے لیکن وہ کبھی مرتا نہیں
جو صدائے کن سے پیدا ہو گیا تو ہو گیا
اپنی مرضی سے یہاں دن کاٹنے کے جرم میں
میں اگر دنیا میں تنہا ہو گیا تو ہو گیا
دیکھتا ہے کون بابرؔ کس کا کیا کردار ہے
جس سے جو منسوب قصہ ہو گیا تو ہو گیا
غزل
لاکھ بہکائے یہ دنیا ہو گیا تو ہو گیا
فیض عالم بابر