EN हिंदी
لاکھ بہکائے یہ دنیا ہو گیا تو ہو گیا | شیح شیری
lakh bahkae ye duniya ho gaya to ho gaya

غزل

لاکھ بہکائے یہ دنیا ہو گیا تو ہو گیا

فیض عالم بابر

;

لاکھ بہکائے یہ دنیا ہو گیا تو ہو گیا
دل سے جو اک بار میرا ہو گیا تو ہو گیا

کیوں ندامت ہو مجھے لا اختیاری فعل پر
میں تری نظروں میں رسوا ہو گیا تو ہو گیا

کم زیادہ ہو تو سکتا ہے مگر چھٹتا نہیں
جس کو جو اک بار نشہ ہو گیا تو ہو گیا

دل بہت روتا ہے لیکن اس بت مغرور سے
منقطع ہر ایک رشتہ ہو گیا تو ہو گیا

منتقل ہوتا ہے لیکن وہ کبھی مرتا نہیں
جو صدائے کن سے پیدا ہو گیا تو ہو گیا

اپنی مرضی سے یہاں دن کاٹنے کے جرم میں
میں اگر دنیا میں تنہا ہو گیا تو ہو گیا

دیکھتا ہے کون بابرؔ کس کا کیا کردار ہے
جس سے جو منسوب قصہ ہو گیا تو ہو گیا