EN हिंदी
لائی نہ صبا بوئے چمن اب کے برس بھی | شیح شیری
lai na saba bu-e-chaman ab ke baras bhi

غزل

لائی نہ صبا بوئے چمن اب کے برس بھی

عظیم مرتضی

;

لائی نہ صبا بوئے چمن اب کے برس بھی
کچھ سوچ کے خاموش ہیں یاران قفس بھی

دستور محبت ہی نہیں جاں سے گزرنا
کر لیتے ہیں یہ کام کبھی اہل ہوس بھی

نازک ہیں مراحل سفر منزل غم کے
اس راہ میں کھو جاتی ہے آواز جرس بھی

آزاد بھی ہو جائیں گے آخر ترے قیدی
اک روز بکھر جائے گی زنجیر نفس بھی

انگشت نما شیخ و برہمن کے چلن پر
مسجد کے منارے بھی ہیں مندر کے کلس بھی

دیوانہ ابھی تک ہے اسی دشمن جاں کا
آتا ہے دل زار پہ غصہ بھی ترس بھی

کچھ آپ کا غم کچھ غم جاں کچھ غم دنیا
دامن میں مرے پھول بھی ہیں خار بھی خس بھی

چپ رہ کے بھی ممکن نہ رہا درد چھپانا
اک شعلۂ آواز ہے اب موج نفس بھی