لاغر ہیں جسم رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے
بالوں پہ گرد پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے
اس معرکے میں عشق بچارا کرے گا کیا
خود حسن کو ہیں جان کے لالے پڑے ہوئے
یہ جو بھی ہو بہار نہیں ہے جناب من
کس وہم میں ہیں دیکھنے والے پڑے ہوئے
اس دہر کی کشادہ دری پر نہ جائیے
اندر قدم قدم پہ ہیں تالے پڑے ہوئے
شیشے کے اک گلاس میں نرگس کے پھول ہیں
اک میز پر ہیں چند رسالے پڑے ہوئے
غزل
لاغر ہیں جسم رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے
احمد مشتاق