لا رہا ہے مے کوئی شیشے میں بھر کے سامنے
کس قدر پر کیف ہے منظر نظر کے سامنے
میں تو اس عالم کو کیا سے کیا بنا دیتا مگر
کس کی چلتی ہے حیات مختصر کے سامنے
پھر نہ دینا طعنۂ ناکامئ ذوق نظر
حوصلہ ہے کچھ تو آ جاؤ نظر کے سامنے
آہ یہ روداد ہنگام طرب اے غم گسار
ذکر گلشن جیسے اک بے بال و پر کے سامنے
ہو چکا جب خاتمہ ساری امیدوں کا تو پھر
جا رہے ہو کیوں شکیلؔ اس فتنہ گر کے سامنے
غزل
لا رہا ہے مے کوئی شیشے میں بھر کے سامنے
شکیل بدایونی