کیونکے کرے نہ شہر کو رو رو اجاڑ چشم
طوفان ہے پہاڑ کوں ڈالی اکھاڑ چشم
ندی کنار روکھ کا ہو ہے نہ باس راست
رو کرے بہائے اشک سیں مژگاں کے جھاڑ چشم
عاشق کا جان کیونکے بچے گا کہ آج دل
خوں ہو تری نگاہ سیں نکسے ہے پھاڑ چشم
وہ خوش نگاہ دل میں لگا کے گیا ہے آگ
آنجھو ہوئے ہیں دانۂ بریان بھاڑ چشم
تجھ تیغ ابرواں کے مقابل ہوئی تھی آج
دل چاک ہو رہا ہے ہمارا دراڑ چشم
یکروؔ کا کچھ گناہ نہیں سرو قد جان
چھٹ اس کہ دیکھتا ہے تری تاڑ تاڑ چشم
غزل
کیونکے کرے نہ شہر کو رو رو اجاڑ چشم
عبدالوہاب یکروؔ