کیوں کر بھلا لگے نہ وہ دل دار دور سے
دونی بہار دیوے ہے گلزار دور سے
نزدیک ہی سے شرم ہے اتنا تو ہو بھلا
دیکھا کریں کبھی کبھی دیدار دور سے
جی تو بھرا نہ اپنا کسی طرح کیا ہوا
دیکھا اگر اسے سر بازار دور سے
بے اختیار اٹھتی ہے بنیاد بے خودی
آتی ہے جب نظر تری دیوار دور سے
نزدیک ٹک بٹھا کے حسنؔ کا تو حال دیکھ
آیا ہے قصد کر کے یہ بیمار دور سے
غزل
کیوں کر بھلا لگے نہ وہ دل دار دور سے
میر حسن