EN हिंदी
کیوں کر بھلا لگے نہ وہ دل دار دور سے | شیح شیری
kyunkar bhala lage na wo dildar dur se

غزل

کیوں کر بھلا لگے نہ وہ دل دار دور سے

میر حسن

;

کیوں کر بھلا لگے نہ وہ دل دار دور سے
دونی بہار دیوے ہے گلزار دور سے

نزدیک ہی سے شرم ہے اتنا تو ہو بھلا
دیکھا کریں کبھی کبھی دیدار دور سے

جی تو بھرا نہ اپنا کسی طرح کیا ہوا
دیکھا اگر اسے سر بازار دور سے

بے اختیار اٹھتی ہے بنیاد بے خودی
آتی ہے جب نظر تری دیوار دور سے

نزدیک ٹک بٹھا کے حسنؔ کا تو حال دیکھ
آیا ہے قصد کر کے یہ بیمار دور سے