کیوں یقیں رکھیں خیال و خواب پر
جم نہ جائے گرد غم اعصاب پر
پیٹتے رہنا لکیریں ہے عبث
غور کرنا چاہیے اسباب پر
لکھ رہا ہے روشنی کی داستاں
اک دیا جلتا ہوا محراب پر
اپنے دکھ کا ماجرا چھیڑا نہیں
یہ مرا احسان ہے احباب پر
تم بھی دنیا والوں جیسے ہو گئے
پڑ گئی تھی کیا نظر سرخاب پر
کشتیاں رومیؔ ڈبوتے ہم رہے
تہمتیں لگتی رہیں گرداب پر
غزل
کیوں یقیں رکھیں خیال و خواب پر
رومانہ رومی