کیوں یاد یہ سب قحط کے اسباب نہ آئے
جب ہم نے دعا کی تھی کہ سیلاب نہ آئے
ہم کو تو اترنا ہے سمندر کی تہوں میں
ہاتھ آئے کہ اب گوہر نایاب نہ آئے
تدبیر کے محور پہ رہا میں یونہی رقصاں
تعبیر کے مرکز پہ مرے خواب نہ آئے
باہر جو اٹھے شور تو کھڑکی سے نہ جھانکو
آنکھوں پہ تمہاری کہیں تیزاب نہ آئے
اعلان کیا اڑتی ہوئی خاک نے ہر سمت
منظر پہ کوئی خطۂ شاداب نہ آئے
میں نے جو کہا تخم وفا ہیں مرے آنسو
کہنے لگے مٹی میں انہیں داب نہ آئے
نکلے ہیں سر شام لئے مشعل فن ہم
نزدیک کوئی کاغذی مہتاب نہ آئے
غزل
کیوں یاد یہ سب قحط کے اسباب نہ آئے
مہتاب عالم