کیوں وہ محبوب رو بہ رو نہ رہے
کیوں نگاہوں میں گفتگو نہ رہے
عشق ہے منتہائے محویت
آرزو کی بھی آرزو نہ رہے
زندگی یہ کہ وہ تجھے چاہیں
موت ہے یہ کہ آبرو نہ رہے
بندگی ہے سپردگئ تمام
ان کی مرضی میں گفتگو نہ رہے
تم جو بیٹھے ہو چھپ کے پردوں میں
چشم کیوں محو رنگ و بو نہ رہے
دل کا ہر بار ہے نیا عالم
کیوں خیالوں میں گفتگو نہ رہے
چشم ساقی ہو مہربان اگر
خواہش بادہ و سبو نہ رہے
آنکھ وہ اس کو پا نہیں سکتی
خون دل سے جو با وضو نہ رہے
دوست سے مان تاجؔ وہ ہستی
جس میں کچھ فرق ماوتو نہ رہے
غزل
کیوں وہ محبوب رو بہ رو نہ رہے
ظہیر احمد تاج