کیوں رنگ سرخ تیرا اب زرد ہو گیا ہے
تو ہی مگر ہمارا ہمدرد ہو گیا ہے
وے دن گئے کہ دل میں رہتا تھا درد اپنے
اب دل نہیں سراپا اک درد ہو گیا ہے
اتنا تو فرق مجھ میں اور دل میں ہے کہ تجھ بن
میں خاک ہو گیا ہوں وہ گرد ہو گیا ہے
ہے چاک چاک سینہ کیوں کر چھپے تو دل میں
یہ تو مکان سارا بے پرد ہو گیا ہے
کس طرح شیخ چھیڑے اب دخت رز کو آ کر
اس طرف سے بچارا نامرد ہو گیا ہے
یاں کیا نہ تھا جو واں کی رکھے حسنؔ توقع
دونوں جہاں سے اپنا دل سرد ہو گیا ہے
غزل
کیوں رنگ سرخ تیرا اب زرد ہو گیا ہے
میر حسن