EN हिंदी
کیوں نہ ہو ذکر محبت کا مرے نام کے ساتھ | شیح شیری
kyun na ho zikr mohabbat ka mare nam ke sath

غزل

کیوں نہ ہو ذکر محبت کا مرے نام کے ساتھ

آنند نرائن ملا

;

کیوں نہ ہو ذکر محبت کا مرے نام کے ساتھ
عمر کاٹی ہے اسی درد دل آرام کے ساتھ

مجھ کو دنیا سے نہیں اپنی تباہی کا گلا
میں نے خود ساز کیا گردش ایام کے ساتھ

اب وہی زیست میں ہے یہ مرے دل کا عالم
جیسے کچھ چھوٹتا جاتا ہے ہر اک گام کے ساتھ

تجھ سے شکوہ نہیں ساقی تری صہبا نے مگر
دشمنی کوئی نکالی ہے مرے جام کے ساتھ

جو کرے فکر رہائی وہی دشمن ٹھہرے
انس ہو جائے نہ طائر کو کسی دام کے ساتھ

زیست کے درد کا احساس کبھی مٹ نہ سکا
سن خوشی کے بھی کٹے اک غم بے نام کے ساتھ

منع‌‌ تقصیر کہوں دعوت تقصیر کہوں
نگہ نرم بھی ہے گرمیٔ الزام کے ساتھ

اپنی اس آج کی طاقت پہ نہ یوں اتراؤ
مہر اٹھا تھا ہر اک صبح شب انجام کے ساتھ

میں تجھے بھول چکا ہوں مگر اب بھی اے دوست
آتی جاتی ہے نگاہوں میں چمک شام کے ساتھ

اب بھی کافی ہے یہ ہر شور پہ چھانے کے لئے
کوئی الفت کی اذاں دے تو ترے نام کے ساتھ

آ گیا ختم پہ صیاد ترا دور فسوں
اب تو دانہ بھی نہیں ہے قفس و دام کے ساتھ

کاخ و ایواں یہی گزرے ہوئے دوروں کے نہ ہوں
گرد سی آئی ہے کچھ دامن ایام کے ساتھ

میں ترا ہو نہ سکا پھر بھی محبت میں نے
جب بھی دنیا کو پکارا تو ترے نام کے ساتھ

خلد اجڑی ہے تو اب اپنے فرشتوں سے بسا
ہم سے کیا ہم تو نکالے گئے الزام کے ساتھ

حجرۂ خلد ہے حور شرر اندام نہیں
ساقیا آتش‌‌ رنگیں بھی ذرا جام کے ساتھ

ذکر ملاؔ بھی اب آتا تو ہے محفل میں مگر
پھیکی تعریف میں لپٹے ہوئے دشنام کے ساتھ

میری کوشش ہے کہ شعروں میں سمو دوں ملاؔ
صبح کا ہوش بھی دیوانگی شام کے ساتھ

دو کناروں کے ہوں مابین میں اک پل ملاؔ
رکھتا جاتا ہوں ستوں ایک ہر اک گام کے ساتھ