کیوں نہ ہو بام پہ وہ جلوہ نما تیسرے دن
ماہ بھی چھپ کے نکلتا ہے دلا تیسرے دن
ہاتھ سے اب تو قلم رشک مسیحا رکھ دے
نسخے بدلے ہیں جہاں کے حکما تیسرے دن
غرق دریائے محبت کی نہیں ملتی لاش
ورنہ ڈوبا ہوا نکلے ہے سنا تیسرے دن
دل بیمار رہے عشق میں کیوں کر سر سبز
خاک سے دانے کو ہے نشو و نما تیسرے دن
چھوڑ مت زلف کے مارے کو تو دریا میں ہنوز
سانپ کے کاٹے کو دیتے ہیں بہا تیسرے دن
اب ذرا چشم کے بیمار کا کر اپنے علاج
ہوتی معلوم ہے تاثیر دوا تیسرے دن
لوگ کہتے ہیں کہ ہیں پھول ترے کشتے کے
مہندی ہاتوں میں تو قاتل لگا تیسرے دن
عمر اک ہفتہ نہیں باغ میں اے گل مت پھول
رنگ بدلے ہے زمانے کی ہوا تیسرے دن
چار حرف اس بت پر خوں کے اوپر بھیج نظیرؔ
آپ سے آپ جو ہو جائے خفا تیسرے دن
غزل
کیوں نہ ہو بام پہ وہ جلوہ نما تیسرے دن
نظیر اکبرآبادی