کیوں نہ ہم سوچ کے سانچے میں ہی ڈھل کر دیکھیں
وہ جو قائم ہے تو پھر خود کو بدل کر دیکھیں
گو مسافت ہے کٹھن اور نہ رستہ کوئی
لیکن اس حال میں اچھا ہے کہ چل کر دیکھیں
ہم محبت کو مکمل نہیں ظاہر کرتے
وہ حنا برگ کو چٹکی میں مسل کر دیکھیں
زندگی موت میں مخفی ہے یقیناً اپنی
مثل پروانہ چلو ہم بھی تو جل کر دیکھیں
ایک کوشش جو ہے اس کی اسے انجام تو دیں
اس کی خواہش پہ ذرا دیر کو ٹل کر دیکھیں
سعدؔ لوگوں سے توقع ہو تو کس بات پہ ہو
مونگ چھاتی پہ مرے روز وہ دل کر دیکھیں
غزل
کیوں نہ ہم سوچ کے سانچے میں ہی ڈھل کر دیکھیں
سعد اللہ شاہ