کیوں ملامت کا ہدف گردش پیمانہ بنے
لغزش پا سے مری کعبہ و بت خانہ بنے
عقل کے بس کی نہیں بخیہ گری پھولوں کی
درد جس کو ہو گلستاں کا وہ دیوانہ بنے
لب حکمت سے شب و روز اجالے ٹپکے
تیرہ ذہنی کا مگر یہ بھی مداوا نہ بنے
بے سبب شوق نہیں مائل افسانہ گری
ہر حقیقت کی یہ خواہش ہے کہ افسانہ بنے
رخ جاناں کے تصور ہی میں راتیں گزریں
چاند تارے دل مہجور کی دنیا نہ بنے
آشنا فصل بہاراں ہی نہیں ہے شاید
کیا کہیں پھول کہ کیوں سبزۂ بیگانہ بنے
میں تو ہوں شمع صفت سوز سراپا شبلیؔ
جس کو جلنا نہیں آتا ہو وہ پروانہ بنے
غزل
کیوں ملامت کا ہدف گردش پیمانہ بنے
علقمہ شبلی