کیوں جیب میں ملا مری تقدیر لیے ہے
کیوں راہ کا ہر موڑ کوئی پیر لیے ہے
کرتا ہے شب و روز جو سرکار کی تعریف
یہ شخص بھی شاید کوئی جاگیر لیے ہے
سر ایک بھی میں نے یہاں اونچا نہیں دیکھا
پاگل ہے جو اب ہاتھ میں شمشیر لیے ہے
ہر پیڑ سے آتی ہے مرے دوست کی خوشبو
ہر پھول مرے شوخ کی تصویر لیے ہے
اک اجنبی ملتا ہے بڑے پیار سے اخترؔ
کیا وہ بھی کوئی حسرت دلگیر لیے ہے

غزل
کیوں جیب میں ملا مری تقدیر لیے ہے
سعید احمد اختر