کیوں چھپاتے ہو کدھر جانا ہے
دشت سے کہہ دو کہ گھر جانا ہے
مجھ میں بھی پہلے اٹھیں گے طوفاں
پھر خموشی کو پسر جانا ہے
کوئی کہتا ہے کہ میں ملبہ ہوں
کسی نے مجھ کو کھنڈر جانا ہے
خاک تو خاک پہ آ بیٹھے گی
خاک کو اڑ کے کدھر جانا ہے
اس کی نادانی تو دیکھو آذرؔ
پھر سے دیوار کو در جانا ہے

غزل
کیوں چھپاتے ہو کدھر جانا ہے
بلوان سنگھ آذر