کیوں بھٹکتی صحرا میں گھر بھی اک خرابہ تھا
بے نشاں اداسی کا بے اماں احاطہ تھا
جب کبھی نظر آیا خواب میں نظر آیا
وہ جہاں پہ رہتا تھا کون سا علاقہ تھا
داخلی کشاکش سے با خبر تو ہو جاتا
ذہن سوچتا کیا تھا دل کا کیا تقاضہ تھا
اس نے حال جب پوچھا میں بھی مسکرا اٹھی
اک وہی تو لمحہ تھا جب مجھے افاقہ تھا
اس کی چشم کم کم سے زخم دل نے جو پایا
گلستاں کے پھولوں میں اک نیا اضافہ تھا
ان کہی کہانی سے ان ادھوری سانسوں تک
بس یہ نیم جانی ہی میرا کل اثاثہ تھا
میری جان جیسی تھی اور جس جگہ پر تھی
ایسی ساری باتوں کا شعر ہی خلاصہ تھا
سعدیہؔ کی حیرانی آج تک نہیں جاتی
کون تھا تماشائی کس کا وہ تماشہ تھا
غزل
کیوں بھٹکتی صحرا میں گھر بھی اک خرابہ تھا
سعدیہ روشن صدیقی