کیوں اور زخم سینے پہ کھاؤ ہو دوستو
کاہے کسی سے آس لگاؤ ہو دوستو
اک آبرو بچی ہے سو رکھیو سنبھال کے
کس پاس کیا غرض لئے جاؤ ہو دوستو
پہنچے وہیں ہیں آج جہاں سے چلے تھے ہم
اب راہ کون اور دکھاؤ ہو دوستو
اس طبع سے تو خود ہی پریشان ہے یہ دل
ٹھیس اس کو اور کاہے لگاؤ ہو دوستو
جور و جفائے یار کے یہ عذر واہ خوب
یہ کیسی بات ہم کو بتاؤ ہو دوستو
مدت ہوئی کہ ختم ہوا اس گلی میں سب
اب اور کس کے کوچے میں جاؤ ہو دوستو
غزل
کیوں اور زخم سینے پہ کھاؤ ہو دوستو
سلیمان احمد مانی