کیوں اندھیروں کا مسافر ہے مقدر اپنا
کوئی سورج تو نکالے یہ سمندر اپنا
ظلمت شب میں جلائے ہوئے اشکوں کے چراغ
عشق کی راہ میں خود عشق ہے رہبر اپنا
کیا لگائے گا کوئی میری انا کی قیمت
دونوں عالم سے گراں تر ہے یہ جوہر اپنا
کوئی چہرہ تو کہیں ہو ترے چہرے کی طرح
شہر خوباں میں نہیں ایک بھی منظر اپنا
دل میں روشن ہے ترا درد زمانے سے نہاں
کیا صدف نے بھی دکھایا کبھی گوہر اپنا
اس کے لب خند میں ڈھل جائے خزاں کا موسم
اس کو گلنار کریں زخم دکھا کر اپنا
انجمن گوش بر آواز ہے رفعتؔ دیکھیں
کس کے سینے میں اترتا ہے یہ نشتر اپنا
غزل
کیوں اندھیروں کا مسافر ہے مقدر اپنا
رفعت القاسمی