کیا یقیں اور کیا گماں چپ رہ
شام کا وقت ہے میاں چپ رہ
ہو گیا قصۂ وجود تمام
ہے اب آغاز داستاں چپ رہ
میں تو پہلے ہی جا چکا ہوں کہیں
تو بھی جاناں نہیں یہاں چپ رہ
تو اب آیا ہے حال میں اپنے
جب زمیں ہے نہ آسماں چپ رہ
تو جہاں تھا جہاں جہاں تھا کبھی
تو بھی اب تو نہیں وہاں چپ رہ
ذکر چھیڑا خدا کا پھر تو نے
یاں ہے انساں بھی رائیگاں چپ رہ
سارا سودا نکال دے سر سے
اب نہیں کوئی آستاں چپ رہ
اہرمن ہو خدا ہو یا آدم
ہو چکا سب کا امتحاں چپ رہ
درمیانی ہی اب سبھی کچھ ہے
تو نہیں اپنے درمیاں چپ رہ
اب کوئی بات تیری بات نہیں
نہیں تیری تری زباں چپ رہ
ہے یہاں ذکر حال موجوداں
تو ہے اب از گزشتگاں چپ رہ
ہجر کی جاں کنی تمام ہوئی
دل ہوا جونؔ بے اماں چپ رہ
غزل
کیا یقیں اور کیا گماں چپ رہ
جون ایلیا