EN हिंदी
کیا اس کی صفت میں گفتگو ہے | شیح شیری
kya uski sifat mein guftugu hai

غزل

کیا اس کی صفت میں گفتگو ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

;

کیا اس کی صفت میں گفتگو ہے
جیسا تھا وہی ہے جو تھا سو ہے

آنکھیں ہیں تو دیکھ لے کہوں کیا
حاضر ناظر ہے روبرو ہے

یک بین کی نظر میں ایک ہے گا
احوال کی نگہ میں گو کہ دو ہے

تو سیر کرے ہے جس چمن کی
ہر گل میں صبا اسی کی بو ہے

وہ تجھ میں ہے تو ہے اسی میں ہر دم
کیا اس کا سراغ و جستجو ہے

اے شیخ تو اس کی کچھ حقیقت
مت پوچھ یہ سر گو مگو ہے

اپنی اپنی سی سب کہیں ہیں
کب عقدہ یہ حل کسو سے ہو ہے

یہ مسئلہ لا جواب ہے گا
چپ رہنا یہاں ہماری خو ہے

چالیس برس ہوئے کہ حاتمؔ
مشاق قدیم و کہنہ گو ہے