کیا اس کی صفت میں گفتگو ہے
جیسا تھا وہی ہے جو تھا سو ہے
آنکھیں ہیں تو دیکھ لے کہوں کیا
حاضر ناظر ہے روبرو ہے
یک بین کی نظر میں ایک ہے گا
احوال کی نگہ میں گو کہ دو ہے
تو سیر کرے ہے جس چمن کی
ہر گل میں صبا اسی کی بو ہے
وہ تجھ میں ہے تو ہے اسی میں ہر دم
کیا اس کا سراغ و جستجو ہے
اے شیخ تو اس کی کچھ حقیقت
مت پوچھ یہ سر گو مگو ہے
اپنی اپنی سی سب کہیں ہیں
کب عقدہ یہ حل کسو سے ہو ہے
یہ مسئلہ لا جواب ہے گا
چپ رہنا یہاں ہماری خو ہے
چالیس برس ہوئے کہ حاتمؔ
مشاق قدیم و کہنہ گو ہے
غزل
کیا اس کی صفت میں گفتگو ہے
شیخ ظہور الدین حاتم