کیا اس کا گلا یورش تہمات بہت ہے
زندہ ہیں جو ہم لوگ یہی بات بہت ہے
جو تم نے بجھا ڈالے دئے ان کو جلا لو
اے صبح کے متوالو ابھی رات بہت ہے
اس واسطے گلچیں کو ہوئی مجھ سے عداوت
تزئین گلستاں میں مرا ہاتھ بہت ہے
ان فرقہ پرستوں کے دلوں میں ہے کدورت
اور ورد زباں لفظ مساوات بہت ہے
ان امن پسندوں کے پرکھنے کو کسوٹی
اس دور کی تفصیل فسادات بہت ہے
یہ بیٹوں کے سر بھائی کا خوں بہنوں کی چیخیں
عبرت ہو اگر ہم کو یہ سوغات بہت ہے
بے حس ہو جو انساں تو کہے جائیے کچھ بھی
غیرت ہو اگر دل میں تو اک بات بہت ہے
سینے سے ترے غم کو لگائے تو رکھیں گے
ناساز مگر گردش حالات بہت ہے
ہاں بیٹھو گدا بن کے برس جائے گی دولت
ان پختہ مزاروں میں کرامات بہت ہے
غزل
کیا اس کا گلا یورش تہمات بہت ہے
قاضی احتشام بچھرونی