کیا تماشا دیکھیے تحصیل لا حاصل میں ہے
ایک دنیا کا مزا دنیائے آب و گل میں ہے
دیکھ یہ جذب محبت کا کرشمہ تو نہیں
کل جو تیرے دل میں تھا وہ آج میرے دل میں ہے
میں بھلا کس سے کہوں کیا کیا کہوں کیسے کہوں
موت سے پہلے ہی مر جانے کی خواہش دل میں ہے
موج و شورش انقلاب و اضطراب و رست و خیز
ہے مزا ساحل میں کب جو دورئ ساحل میں ہے
جھانک کر دل میں ذرا یہ تو بتا دیجے حضور
میری قسمت کا ستارہ کون سی منزل میں ہے
مجھ کو بھاتا ہی نہیں اک آنکھ حسن کائنات
ہاں مگر وہ جو ترے رخسار کے اک تل میں ہے
کر دیا بیگانۂ غم ہائے دنیا عشق نے
مجھ کو آسانی یہی تو اپنی اس مشکل میں ہے
تیرا ماضی حال سے دست و گریباں گر رہا
میں بتاتا ہوں جو سرورؔ تیرے مستقبل میں ہے
غزل
کیا تماشا دیکھیے تحصیل لا حاصل میں ہے
سرور عالم راز