EN हिंदी
کیا سنے کوئی زبانی میری | شیح شیری
kya sune koi zabani meri

غزل

کیا سنے کوئی زبانی میری

عبید صدیقی

;

کیا سنے کوئی زبانی میری
اور پھر وہ بھی کہانی میری

شہر صحرا کی طرح لگتا ہے
رائیگاں نقل مکانی میری

ایک چہرہ مرے چہرے سے الگ
ایک تصویر پرانی میری

میں کہ دریا تھا جو اب ساکت ہوں
کھو گئی مجھ میں روانی میری

رات شبنم میں بہت بھیگا تھا
دیکھ اب شعلہ فشانی میری