کیا روشنی حسن صبیح انجمن میں ہے
فانوس میں ہے شمع کہ تن پیرہن میں ہے
بھڑکاتی ہے جنوں کو گل و لالہ کی بہار
اک آگ سی لگی ہوئی سارے چمن میں ہے
پرزے سمجھ کے جامۂ تن کے اڑا جنوں
وہ جامہ زیب بھی تو اسی پیرہن میں ہے
سوکھے شجر ہرے جو ہوئے پھر تو کیا ہوا
ناسور نو ہمارے بھی زخم کہن میں ہے
بزم خیال یار میں غیروں کا کیا گزر
خلوت جو چاہئے وہ اسی انجمن میں ہے
تقدیر ریگ شیشۂ ساعت ملی مجھے
کلفت سفر کی رات دن اپنے وطن میں ہے
بلبل کی خوشنوائی کا باعث ہے عشق گل
دل میں جو درد ہے تو مزہ بھی سخن میں ہے
رنگ خزاں بھی جس کا ہے رشک بہار ابر
وہ کشت زعفراں کی ہمارے وطن میں ہے

غزل
کیا روشنی حسن صبیح انجمن میں ہے
بشن نرائن درابر