کیا قیامت ہے کہ اک شخص کا ہو بھی نہ سکوں
زندگی کون سی دولت ہے کہ کھو بھی نہ سکوں
گھر سے نکلوں تو بھرے شہر کے ہنگامے ہیں
میں وہ مجبور تری یاد میں رو بھی نہ سکوں
دن کے پہلو سے لگا رہتا ہے اندیشۂ شام
صبح کے خوف سے نیند آئے تو سو بھی نہ سکوں
ختم ہوتا ہی نہیں سلسلۂ موج سراب
پار اتر بھی نہ سکوں ناؤ ڈبو بھی نہ سکوں
شاذؔ معلوم ہوا عجز بیانی کیا ہے
دل میں وہ آگ ہے لفظوں میں سمو بھی نہ سکوں

غزل
کیا قیامت ہے کہ اک شخص کا ہو بھی نہ سکوں
شاذ تمکنت