EN हिंदी
کیا پوچھتے ہو شہر میں گھر اور ہمارا | شیح شیری
kya puchhte ho shahr mein ghar aur hamara

غزل

کیا پوچھتے ہو شہر میں گھر اور ہمارا

احمد جاوید

;

کیا پوچھتے ہو شہر میں گھر اور ہمارا
رہنے کا ہے انداز ادھر اور ہمارا

وہ تیغ نہ جانے کدھر اٹھتی ہے ابھی تو
جھگڑا ہے دل سینہ سپر اور ہمارا

جب ہوش میں آئے تو اسے دیکھ بھی لیں گے
فی الحال ہے انداز نظر اور ہمارا

یہ مہر و نشاں طبل و علم خوب ہے لیکن
بڑھ جائے گا کچھ بار سفر اور ہمارا

دل ایسا مکاں چھوڑ کے یہ حال ہوا ہے
یعنی نگہ خانہ بدر اور ہمارا