EN हिंदी
کیا پوچھتے ہو مجھ کو محبت میں کیا ملا | شیح شیری
kya puchhte ho mujhko mohabbat mein kya mila

غزل

کیا پوچھتے ہو مجھ کو محبت میں کیا ملا

رضا جونپوری

;

کیا پوچھتے ہو مجھ کو محبت میں کیا ملا
دونوں جہاں کا درد بہ نام خدا ملا

شاید یہی ہے حاصل پایان آرزو
اپنا پتہ نہیں ہے جو ان کا پتا ملا

افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
جب ان کے سلسلے سے مرا سلسلہ ملا

جب سے نہیں وہ نغمہ زن ساز زندگی
اک ایک تار دل کا مجھے بے صدا ملا

تم کیا ملے مژہ کے ضیا بار کو بہ کو
پردے میں شب کے صبح کا روئے صفا ملا

ہر آرزو کی ایک وہی جان آرزو
ہر مدعا کا ایک وہی مدعا ملا

وجہ دوام فطرت غم ہی نہیں فقط
دل بھی ازل طراز ابد آشنا ملا

کیسی بہار موجۂ کیف و نشاط کیا
پہلوئے گل نہ دامن باد صبا ملا

جنت چمک چمک اٹھی رنگ و جمال کی
کس گل کی آرزو کا شرف اے رضاؔ ملا