EN हिंदी
کیا پوچھتے ہو میں کیسا ہوں | شیح شیری
kya puchhte ho main kaisa hun

غزل

کیا پوچھتے ہو میں کیسا ہوں

بقا بلوچ

;

کیا پوچھتے ہو میں کیسا ہوں
اک سرد ہوا کا جھونکا ہوں

ہے مری روح میں بے چینی
میں اپنے آپ میں الجھا ہوں

ہے مرا سایہ اور کوئی
میں اور کسی کا سایہ ہوں

تو خوش ہے اپنی دنیا میں
میں تری یاد میں جلتا ہوں

اب لوٹ کے آ اور دیکھ بقاؔ
اک عمر سے تنہا تنہا ہوں