EN हिंदी
کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی | شیح شیری
kya puchhte ho dard ke maron ki zindagi

غزل

کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی

سیفی سرونجی

;

کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی
یعنی فلک کے ڈوبتے تاروں کی زندگی

پھیلاؤں ہاتھ جا کے بھلا کس کے سامنے
ہم کو نہیں گوارا سہاروں کی زندگی

ساحل پہ آ کے موج تلاطم سے بارہا
برباد ہو گئی ہے ہزاروں کی زندگی

آتی ہے یاد کیوں مجھے رہ رہ کے آج بھی
گلشن کے دل فریب نظاروں کی زندگی

ہے آندھیوں کا خوف نہ ہے ڈوبنے کا ڈر
مجھ کو نہیں پسند کناروں کی زندگی

کس درجہ خوش گوار ہے تنہائیوں میں آج
سیفیؔ چمکتے چاند ستاروں کی زندگی