کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی
یعنی فلک کے ڈوبتے تاروں کی زندگی
پھیلاؤں ہاتھ جا کے بھلا کس کے سامنے
ہم کو نہیں گوارا سہاروں کی زندگی
ساحل پہ آ کے موج تلاطم سے بارہا
برباد ہو گئی ہے ہزاروں کی زندگی
آتی ہے یاد کیوں مجھے رہ رہ کے آج بھی
گلشن کے دل فریب نظاروں کی زندگی
ہے آندھیوں کا خوف نہ ہے ڈوبنے کا ڈر
مجھ کو نہیں پسند کناروں کی زندگی
کس درجہ خوش گوار ہے تنہائیوں میں آج
سیفیؔ چمکتے چاند ستاروں کی زندگی
غزل
کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی
سیفی سرونجی