کیا پتہ کیا تھا ادھر اور کیا نہ تھا
قد مرا دیوار سے اونچا نہ تھا
ذہن مردہ جسم بے حس بے لباس
میں نے وہ دیکھا ہے جو دیکھا نہ تھا
بھاگتا پھرتا ہوں اپنے آپ سے
ایسا بھی ہوگا کبھی سوچا نہ تھا
ملگجے بگڑے سے چہرے ہر طرف
زندگی پہلے تجھے دیکھا نہ تھا
مسئلے کچھ لکھ گیا دیوار پر
ایک دیوانہ جو دیوانہ نہ تھا
اس کی لاکھوں میں یہی پہچان تھی
قبر پر اس کی کوئی کتبہ نہ تھا
جس نے جو مانگا اسے وہ دے دیا
اے خدا کیا میں ترا بندہ نہ تھا

غزل
کیا پتہ کیا تھا ادھر اور کیا نہ تھا
صابر ادیب