کیا نظر کی ہشیاری خود اسیر مستی ہے
جو نگاہ اٹھتی ہے محو خود پرستی ہے
بادلوں کو تکتا ہوں جانے کتنی مدت سے
ایک بوند پانی کو یہ زباں ترستی ہے
اک جنم کے پیاسے بھی سیر ہوں تو ہم جانیں
یوں تو رحمت یزداں چار سو برستی ہے
رات غم کی آئی ہے ہوشیار دل والو
دیکھنا ہے یہ ناگن آج کس کو ڈستی ہے
شاید آج آئینہ دل کا ٹوٹ ہی جائے
پھر نظر کی ویرانی زندگی پہ ہنستی ہے
میں نے اپنی پلکوں پر غم کدے سجائے ہیں
آرزو کے ماتم میں سوگوار ہستی ہے
اب بتابش اختر تیرگی ہے افزوں تر
روشنی بھی بک جائے یہ کمال پستی ہے

غزل
کیا نظر کی ہشیاری خود اسیر مستی ہے
حنیف فوق